Quantcast
Channel: Blasphemy – Pak Tea House
Viewing all articles
Browse latest Browse all 18

جہلم سانحہ: حیات وبال جاں نہ ہو

$
0
0

تحریر: عماد ظفر

Qadiani

برداشت اور رواداری اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ امن و محبت سے رہنے کا نام ہے۔مہذب اور ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں مختلف سوچ نظریئے اور عقائد رکھنے والے لوگ بستے ہیں اور آپس کے فرق کو کبھی بھی باہم رویوں پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں انسانی زندگی کی قدرو قیمت ہوتی ہے۔ ہم لوگ آج بھی اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ قومیں یا معاشرےنظریات اور عقائد کے اختلافات کو بھلا کر ایک قوم کے طور پر سوچتی ہیں تو آگے بڑھنے پاتی ہیں۔

جمعہ کی شب جہلم میں اس وقت انتہائی افسوس ناک واقعہ پیش آیا جب جہلم میں مشتعل ہجوم نے ایک مخصوص فرقے یعنی احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی فیکٹری کو جلانے کی کوشش کی اور اس وقت فیکٹری میں مزدور بھی کام کر رہے تھے ۔خیر پولیس اور انتظامیہ کی کوششوں سے وہاں کام کرنے والوں اور فیکٹری مالک کو خاندان سمیت بحفاظت نکال لیا گیا لیکن فیکٹری جل کر خاک ہو گئی اور اس سے ملحقہ مکانات بھی نظرِ آتش کر دیئے گئے۔ مشتعل ہجوم کو ایک مسجد کے لاؤڈ سپیکرز سے اعلان کر کے بتایا گیا تھا کہ اس فیکٹری میں خدانخواستہ قران کریم کے اوراق کے ساتھ بے حرمتی کی گئی ہے اور انہیں جلایا گیا ہے۔ بس ایک اعلان سننے کے بعد بِنا تحقیق کیئے مشتعل افراد نے پل بھر میں سب کچھ نظرِ آتش کر دیا۔

جہلم میں قائم پچاس برس سے چپ ووڈ تیار کرنے والی یہ فیکٹری سینکڑوں افراد کے روزگار کا وسیلہ بھی تھی۔ وزیر اعلی پنجاب نے نوٹس تو لیا اور امن و امان بحال کرنے کے لیئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری بھی تعینات کی لیکن کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جس شخص نے یہ مذموم حرکت کی اور لاؤڈ سپیکر کے ذریعے لوگوں کو مشتعل کیا اس کو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟

پچھلے سال گوجرانوالہ میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا جب خانہ کعبہ کی بے حرمتی کے الزام میں تین خواتین کو زندہ جلا دیا گیا تھا اور بعد میں تحقیقات ہونے پر پتہ چلا کہ ان کو ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل کیا گیا تھا اور اس کے لیئے توہین کا سہارا لیا گیا تھا۔ جہلم میں پیش آنے والے اس واقعے کے بات کچھ احمدی کمیونٹی کے لوگوں اور وہاں کے مقامی رہائشیوں سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ بھی ایک پرانی رنجش کا نتیجہ تھا۔ یعنی محض ذاتی دشمنی کے لیئے توہینِ قران کی آڑ میں اس کمیونٹی کے خلاف یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔

مزید پڑھیے: خوشبو اور روشنیوں کے شہروں میں بارود کی بو

جس وقت مشتعل ہجوم فیکٹری اور اس میں موجود انسانوں کو زندہ جلانے کی کوشش کر رہا تھا عین اسی وقت ٹی وی چینلز ریحام خان ایان علی اور دیگر مصالحہ دار خبروں سے ناظرین کو آگاہ کر رہے تھے۔ اس سانحے کے بارے میں  ایک ٹی وی چینل نے چھوٹی سی خبر دی اور کچھ نے محض ٹکر چلانے پر اکتفا کیا۔ یہ بے حسی دیکھ کر کچھ دکھ بھی ہوا آخر کو اقلیتیں بھی اتنا ہی حق رکھتی ہیں جتنا کہ ہم سب باقی مسلمان اس ملک میں بستے ہوئے رکھتے ہیں۔وہ لبرل حضرات جو پیرس دھماکوں کے غم میں مرے جا رہے تھے اور سوشل میڈیا پر بڑے بڑے جزباتی سٹیٹس اپ لوڈ کرنے سے لیکر ٹی وی ٹاک شوز میں بھی پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے نہیں تھک رہے تھےاس واقع پر خاموش نظر آئے۔

ہم ان واقعات پر ہمیشہ چپ سادھ کر ایک طرح سے انہیں قبولیت کی سند بخشتے ہیں اور پھر جب دنیا ہمیں غیر مہذب اور عدم برداشت والا معاشرہ قرار دیتی ہے تو اسے یہود و نصاریٰ کی عالمی سازش قرار دیتے ہوئے انتہائی کمال مہارت سے اپنی مجرمانہ خاموشی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔کارپٹ کے نیچے گند جمع کر کے ہم یہ سوچتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور دنیا ہمیں صاف ہی سمجھے گی۔ اب ذرا بتایئے کیا جہلم میں ہونے والے اس سانحے میں بھی بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے یا کوئی عالمی سازش ہے؟حقیقت سے پرے اپنی اپنی ڈیپریشن اور فرسٹریشن کو توہین کی آڑ میں کمزور اقلیتوں پر نکالنے والے یہ چیختے چلاتے ہزارہا افراد کیا پاکستانی نہیں ہیں اور کیا یہ اس بات کا اعلان نہیں ہے کہ یہ سب چلتے پھرتے بم ہیں جو اس ملک کے پالیسی سازوں نے عدم برداشت اور تعصب پر مبنی غلط پالیسیوں کے باعث خود تخلیق کیئے ہیں۔ شدت پسندی کا یہ جن اب خود اس کو بوتل سے نکالنے والوں کے بھی قابو میں نہیں رہا۔ اور افسوس اس امر کا ہے کہ دانشور اور صحافی طبقہ بھی خوف سے یا اور کسی وجہ سے ان تمام واقعات سے چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔

ایک فیکٹری جو جہلم شہر میں دہائیوں سے کام کر رہی تھی اور انتہائی کامیابی سے منافع کما رہی تھی کیا اس کا مالک پاگل ہے جو اس طرح کی حرکت کا سوچ کر خود اپنے کاروبار اور خاندان کی روزی پر لات مارتا اور ان کی زندگی کا رسک لیتا۔کم سے کم کوئی بھی ذی شعور شخص تو ایسی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔توہین کے متعلق یقینا کوئی بحث نہیں کی جا سکتی اور اس کی سزا طے شدہ ہے لیکن کیا ہم اسی طرح توہین کی آڑ میں اقلیتوں کو رنج کرتے رہیں گے یا زندہ جلاتے رہیں گے۔ یہ تمام افراد جو کسی روبوٹ کی طرح دوسروں کو زندہ جلانے پہنچ جاتے ہیں کیا کبھی ان کو قانون کے کٹہرے میں لا کر توہین انسانیت کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا؟

مزید پڑھیے:ممتاز قادری کی سزائے موت عدلیہ کا جرات مندانہ فیصلہ

احمدی عبادت گاہ کے سامان کو جلا کر دھونے کے بعد اس میں نماز پڑھنے والے کیا کل کو اسی طرح کا واقعہ اپنی مساجد کے حوالے سے دنیا میں کہیں پر بھی برداشت کر سکتے ہیں؟ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے اپنے حصے کی بے ایمانی دھونس دھاندلی کے بعد اس طرح بنا تحقیق کیئے کسی کو زندہ جلا دینے والے افراد دراصل خود انسانیت کے ماتھے پر ایک بد نما داغ کی مانند ہیں۔منافقانہ جاہلانہ اور وحشیانہ طرز عمل سے کمزوروں اور اقلیتوں کو دبانے والے معاشرے جب دنیا میں کشمیر فلسطین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یقینا اقوام عالم ان کے اس مطالبے پر کان تک نہیں دھرتیں۔ انسانی حقوق پر بات کرتے ہم لوگ بھانڈ سے کم دکھائی نہیں دیتے کیونکہ خود اپنے سوا کسی بھی اور عقیدے یا قوم کو جینے تک کا حق دیتے نہیں نظر آتے لیکن اپنے لیئے ہمیں اقوام عالم سے تمام بنیادی حقوق چاہیے ہوتے ہیں۔

جہلم کا یہ واقعہ یا اس سے پہلے گوجرانوالہ میں ہونے والا واقع اس بات کا غماز ہے کہ طالبان داعش یا القائدہ ایک سوچ کا نام ہے اور یہ سوچ محض ضرب عضب جیسے آپریشن سے ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ فوجی آپریشن میں آپ دہشت گردوں کو مارتے ہیں لیکن سوچ کو نہیں۔یہ شدت پسندانہ سوچ مذہب فرقہ اور قومیت کے نام پر وطن عزیز کے گلی کونوں میں بکتی ہے۔ نصاب سے لیکر لٹریچر سب میں بچوں کو ایک نرگسی دنیا رٹای اور دکھائی جاتی ہے جہاں اپنے سوا کچھ اور دکھائی ہی نہیں دے سکتا۔ انسانی جان کی قدر اور اہمیت کے حوالے سے ہم اتنے ہی نابلد ہیں جتنا کہ پتھر کے دور کا انسان تھا۔ اور اس دور جاہلیت میں ہم خود اپنی غلط پالیسیوں کے باعث پہنچے ہیں۔ ابھی بھی بین المذاہب ہم آہنگی اور برداشت کم سے کم ہمارے معاشرے میں ایک خواب ہی ہیں۔پالیسیاں بناتے افراد بھی مصلحتوں کا شکار نظر آتے اس بنیادی مسئلے پر کوئی توجہ دیتے دکھائی نہیں دیتے۔آپ جتنی مرضی موٹر وے اور میٹرو بنا لیں اگر آپ شدت پسند دماغ اور سوچ پیدا کرتے رہیں گے اور نفرتیں اور تعصب پیدا کرنے والے بنیادی کرداروں کو نہیں روکیں گے تو یہ آگ اس انفراسٹرکچر کو بھی جلا کر راکھ کر دے گی۔

معاشرے زندہ لوگوں کے دم سے ترقی کرتے ہیں نا کہ نیم مردہ شدت پسند افراد کے دم پر. ہم اگر دوسرے عقائد کو اپنے ملک میں جگہ نہیں دیں گے انہیں زندہ رہنے کا موقع بھی فراہم نہیں کریں گے تو کل کو دنیا ہمیں بھی کوئی جگہ دینے پر آمادہ نہیں ہو گی. یہ قانونِ فطرت ہے کہ جو آپ بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان پر بلا امتیاز عمل کرنے میں کیا قباحت ہے مقتدر قوتوں کو کھل کر اس کا اظہار کرنا چاہیئے۔ یقیناََ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مذہب کے نام پر گلے کاٹنا اور زندہ جلانا ایک معمولی سی بات تصور کیا جاتا ہو وہاں یہ اصلاحات لانا بے حد مشکل ہے لیکن اس کا آغاز ہمیں آج نہیں تو کل کرنا ہی ہے تو کیوں نہ بنا کسی اور انسان کی قربانی دیئے ہم اس کا آغاز آج سے کر دیں۔ اپنے بچوں کو زندگی کی روشنیوں میں کیوں نہ آج ہی سے جینا سکھائیں۔ نفرت کو لے کر آج تک دنیا میں صرف بربادی ہی ہوئی ہے۔ آئیے بربادی کے اس راستے کو چھوڑ کر ایک ایسا راستہ اپنائیں جہاں محبت و امن ہر سو ہوں اور بقول احمد ندیم قاسمی صاحب کسی بھی ہم وطن کے لیئے حیات وبال جاں نہ ہو۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 18

Trending Articles